اکثر تنہائی سے مل کر روئے ہیں
ہم نے اپنے اشک آگ سے دھوئے ہیں
بہت نبھائی لین دین کی رسمیں بھی
کچھ آنسو پائے ہیں کچھ غم کھوئے ہیں
جب بھی بارش نے مٹی سے منہ موڑا
جلتے سورج نے ذرات بھگوئے ہیں
خبر جہاں ملتی ہے اپنے ہونے کی
ہم اس منزل پر بھی کھوئے کھوئے ہیں
جب خود کو پانا ہی مشکل کام ہوا
کیوں کچے دھاگے میں پھول پروئے ہیں
بال و پر پاتے ہی اڑے ہواؤں میں
ہم نے جو نزدیک کے رشتے ڈھوئے ہیں
تم کو کیا معلوم مری تنہائی نے
لفظوں میں اپنے جذبات سموئے ہیں
ہم کیا جانیں خوابوں کی نرمی کیا ہے
ہم کب خوشبو کی بانہوں میں سوئے ہیں
بہا نہ لے جائے ان کو بارش اوشاؔ
چٹانوں پر خواب وفا کے بوئے ہیں
غزل
اکثر تنہائی سے مل کر روئے ہیں
اوشا بھدوریہ