اکثر مری زمیں نے مرے امتحاں لئے
زندہ ہوں اپنے سر پہ کئی آسماں لئے
بے چارگی کبھی مجھے ثابت نہ کر سکی
کیا کیا مری حیات نے میرے بیاں لئے
اپنی صداقتوں سے بھی لگنے لگا ہے ڈر
چلنا ہے اس زمیں پہ سراب گماں لئے
اور میں کہ اپنی ذات سے نسبت نہیں مری
ہر شخص پھر رہا ہے مری داستاں لئے
مانگی نہیں ہے میں نے کسی آسماں سے دھوپ
زندہ ہوں اپنے ہاتھوں میں اپنا جہاں لئے
سارا قصور جیسے مری بے بسی کا تھا
الزام اپنے سر پہ کسی نے کہاں لئے
عنوان اضطراب کئے کتنے فاصلے
تم نے قدم قدم پہ مرے امتحاں لئے
پہنا انہیں تو میں بھی دھنک پوش ہو گئی
اپنا سمجھ کے میں نے تمہارے نشاں لئے
اوشاؔ تمام عمر کٹی انتظار میں
آیا نہ کوئی گھر میں دل مہرباں لئے
غزل
اکثر مری زمیں نے مرے امتحاں لئے
اوشا بھدوریہ