اکثر اس طرح سے بھی رات بسر ہوتی ہے
رات کی رات نظر جانب در ہوتی ہے
جس سے دنیائے سکوں زیر و زبر ہوتی ہے
وہ ملاقات سر راہ گزر ہوتی ہے
ٹھیس لگتی ہے جہاں عشق کی خودداری کو
زندگی بڑھ کے وہیں سینہ سپر ہوتی ہے
یہ سپیدیٔ سحر ہے کہ ستاروں کا کفن
رات دم توڑ رہی ہے کہ سحر ہوتی ہے
اپنے دامن سے تو میں پونچھ رہا ہوں آنسو
دامن دوست کی توہین مگر ہوتی ہے
آپ آرائش گیسو میں لگے ہیں ناحق
فاتح دل تو محبت کی نظر ہوتی ہے
راستہ روکے ہوئے کب سے کھڑی ہے دنیا
نہ ادھر ہوتی ہے ظالم نہ ادھر ہوتی ہے
تو نظر بھر کے سر بزم نہ دیکھ ان کو نذیرؔ
اس سے رسوائی تہذیب نظر ہوتی ہے
غزل
اکثر اس طرح سے بھی رات بسر ہوتی ہے
نذیر بنارسی