اکثر اپنے درپئے آزار ہو جاتے ہیں ہم
سوچتے ہیں اس قدر بیمار ہو جاتے ہیں ہم
مضطرب ٹھہرے سو شب میں دیر سے آتی ہے نیند
صبح سے پہلے مگر بیدار ہو جاتے ہیں ہم
نام کی خواہش ہمیں کرتی ہے سرگرم عمل
اس عمل سے بھی مگر بیزار ہو جاتے ہیں ہم
جھوٹا وعدہ بھی اگر کرتی ہے ملنے کا خوشی
وقت سے پہلے بہت تیار ہو جاتے ہیں ہم
بھول کر وہ بخش دے گر روشنی کی اک کرن
دائمی شہرت کے دعویدار ہو جاتے ہیں ہم
مطمئن ہونا بھی اپنے بے خبر ہونے سے ہے
بے سکوں ہوتے ہیں جب ہشیار ہو جاتے ہیں ہم
اک ذرا سی بات اور پھر اشک تھمتے ہی نہیں
لہر سی اک دل میں اور سرشار ہو جاتے ہیں ہم
غزل
اکثر اپنے درپئے آزار ہو جاتے ہیں ہم
شبنم شکیل