EN हिंदी
اجنبی مسافر کو راستہ دکھائے گا | شیح شیری
ajnabi musafir ko rasta dikhaega

غزل

اجنبی مسافر کو راستہ دکھائے گا

ماہر عبدالحی

;

اجنبی مسافر کو راستہ دکھائے گا
کون اپنی چوکھٹ پر اب دیا جلائے گا

جتنی نعمتیں ہوں گی خوب ڈٹ کے کھائے گا
پھر ہمیں قناعت کا وہ سبق پڑھائے گا

پہلے آنے والے ہی لوٹ لے گئے سب مال
بعد میں جو آئے گا خالی ہاتھ جائے گا

پیٹ ہے اگر خالی پھر کہاں کی خودداری
بھوک جب ستائے گی خود کو بیچ کھائے گا

سب کی اپنی راہیں ہیں سب کی اپنی سمتیں ہیں
کون ایسے عالم میں کارواں بنائے گا

جس کی عمر گزری ہو ریشمی شبستاں میں
کیا وہ ہانپتے دن کی داستاں سنائے گا

آئنہ صفت لوگو یوں رہو نہ پردے میں
ورنہ کون دنیا کو آئنہ دکھائے گا

ہم جو مل کے آپس میں روشنی لٹائیں گے
میں بھی جگمگاؤں گا تو بھی جگمگائے گا

پھر وہ دے گا خوش خبری ہم کو پار اترنے کی
پھر ندی میں کاغذ کی ناؤ وہ بہائے گا

میری جڑ بھی کاٹے گا وقت پر پس پردہ
وہ مری حمایت میں ہاتھ بھی اٹھائے گا

محفلیں فقیروں کی بوریے پہ سجتی ہیں
بارگاہ شاہی کو کون منہ لگائے گا

افسروں کے خادم سب جٹ گئے صفائی میں
ماہرؔ اپنی بستی میں آج کون آئے گا