عجیب شخص ہے مجھ کو تو وہ دوانہ لگے
پکارتا ہوں تو اس کو مری صدا نہ لگے
گزر رہا ہے مرے سر سے جو ہوا کی طرح
کبھی کبھی تو وہی لمحہ اک زمانہ لگے
گلی میں جس پہ ہر اک سمت سے چلے پتھر
مجھے وہ شخص کسی طرح بھی برا نہ لگے
مزاج اس نے بھی کیسا عجیب پایا ہے
ہزار چھیڑ کروں پر اسے برا نہ لگے
ہمارے پیچھے وہ چپ چاپ بیٹھا رہتا ہے
میں سوچتا ہوں مگر کچھ مجھے پتا نہ لگے
اسی خیال سے شاید ہے بند وہ کھڑکی
ٹھٹھرتی شام کی اس کو کہیں ہوا نہ لگے
سنائیں کس کو یہاں آپ بیتی اے اسلمؔ
ہمیں تو اپنی ہی ہر بات خود فسانہ لگے

غزل
عجیب شخص ہے مجھ کو تو وہ دوانہ لگے
اسلم آزاد