عجیب شے ہے کہ صورت بدلتی جاتی ہے
یہ شام جیسے مقابر میں ڈھلتی جاتی ہے
چہار سمت سے تیشہ زنی ہوا کی ہے
یہ شاخ سبز کہ ہر آن پھلتی جاتی ہے
پہنچ سکوں گا فصیل بلند تک کیسے
کہ میرے ہاتھ سے رسی پھسلتی جاتی ہے
کہیں سے آتی ہی جاتی ہے نیند آنکھوں میں
کسی کے آنے کی ساعت نکلتی جاتی ہے
نگہ کو ذائقۂ خاک ملنے والا ہے
کہ ساحلوں کی طرف ناؤ چلتی جاتی ہے
غزل
عجیب شے ہے کہ صورت بدلتی جاتی ہے
عبد الحمید