EN हिंदी
عجیب سانحہ گزرا ہے ان گھروں پہ کوئی | شیح شیری
ajib saneha guzra hai in gharon pe koi

غزل

عجیب سانحہ گزرا ہے ان گھروں پہ کوئی

جاوید انور

;

عجیب سانحہ گزرا ہے ان گھروں پہ کوئی
کہ چونکتا ہی نہیں اب تو دستکوں پہ کوئی

اجاڑ شہر کے رستے جو اب سناتے ہیں
یقین کرتا ہے کب ان کہانیوں پہ کوئی

ہے بات دور کی منزل کا سوچنا اب تو
کہ رستہ کھلتا نہیں ہے مسافروں پہ کوئی

وہ خوف ہے کہ بدن پتھروں میں ڈھلنے لگے
عجب گھڑی کہ دعا بھی نہیں لبوں پہ کوئی

ہوا بھی تیز نہ تھی جب پرندہ آ کے گرا
نہیں تھا زخم بھی جاویدؔ ان پروں پہ کوئی