عجیب سانحہ گزرا ہے ان گھروں پہ کوئی
کہ چونکتا ہی نہیں اب تو دستکوں پہ کوئی
اجاڑ شہر کے رستے جو اب سناتے ہیں
یقین کرتا ہے کب ان کہانیوں پہ کوئی
ہے بات دور کی منزل کا سوچنا اب تو
کہ رستہ کھلتا نہیں ہے مسافروں پہ کوئی
وہ خوف ہے کہ بدن پتھروں میں ڈھلنے لگے
عجب گھڑی کہ دعا بھی نہیں لبوں پہ کوئی
ہوا بھی تیز نہ تھی جب پرندہ آ کے گرا
نہیں تھا زخم بھی جاویدؔ ان پروں پہ کوئی

غزل
عجیب سانحہ گزرا ہے ان گھروں پہ کوئی
جاوید انور