عجیب رت تھی برستی ہوئی گھٹائیں تھیں
زمیں نے پیاس کی اوڑھی ہوئی ردائیں تھیں
وہ کیسا قافلہ گزرا وفا کی راہوں سے
ستم کی ریت پہ پھیلی ہوئی جفائیں تھیں
حصار ذات سے نکلا تو آگے صحرا تھا
برہنہ سر تھے شجر چیختی ہوائیں تھیں
وہ کون لوگ تھے جن کو سفر نصیب نہ تھا
وگرنہ شہر میں کیا کیا کڑی سزائیں تھیں
میں اپنے آپ سے بچھڑا تو خواب صورت تھا
مری تلاش میں بھٹکی ہوئی صدائیں تھیں
وہ ایک شخص ملا اور بچھڑ گیا خود ہی
اسی کے فیض سے زندہ مری وفائیں تھیں
کوئی خیال تھا شاید بھٹک گیا جو عقیلؔ
مرے وجود میں شب بھر وہی ندائیں تھیں

غزل
عجیب رت تھی برستی ہوئی گھٹائیں تھیں
شفیع عقیل