عجیب رات تھی وہ رات میں نہیں آیا
کہ میرے خواب طلسمات میں نہیں آیا
وہ اس لئے ہی تو آیا تھا پھول کھل جائیں
پھر اس کے بعد وہ باغات میں نہیں آیا
میں چاہتا تھا اسے چھو کے دیکھ لوں لیکن
وہ آسمان مرے ہات میں نہیں آیا
وگرنہ تم سے تعلق میں ختم کر دیتا
پہ انتشار بیانات میں نہیں آیا
گنہ معاف میں اس کو خدا بنا بیٹھا
خدا خیال ملاقات میں نہیں آیا
کھلے کواڑ مرے گھر کے بین کرتے رہے
کوئی بھی ہاتھ مرے ہات میں نہیں آیا
فرات تو نے بہتر کی تشنگی دیکھی
تو پھر بھی خیمہ سادات میں نہیں آیا

غزل
عجیب رات تھی وہ رات میں نہیں آیا
اسامہ امیر