EN हिंदी
عجیب خواہش ہے شہر والوں سے چھپ چھپا کر کتاب لکھوں | شیح شیری
ajib KHwahish hai shahr walon se chhup chhupa kar kitab likkhun

غزل

عجیب خواہش ہے شہر والوں سے چھپ چھپا کر کتاب لکھوں

نوشی گیلانی

;

عجیب خواہش ہے شہر والوں سے چھپ چھپا کر کتاب لکھوں
تمہارے نام اپنی زندگی کی کتاب کا انتساب لکھوں

وہ لمحہ کتنا عجیب تھا جب ہماری آنکھیں گلے ملی تھیں
میں کس طرح اب محبتوں کی شکستگی کے عذاب لکھوں

تمہی نے میرے اجاڑ رستوں پہ خواہشوں کے دیے جلائے
تمہی نے چاہا تھا خشک ہونٹوں سے چاہتوں کے گلاب لکھوں

کبھی وہ دن تھے کہ نیند آنکھوں کی سرحدوں سے پرے پرے تھی
مگر میں اب جب بھی سونا چاہوں تمہاری یادوں کے خواب لکھوں

میں تنہا لڑکی دیار شب میں جلاؤں سچ کے دیئے کہاں تک
سیاہ کاروں کی سلطنت میں میں کس طرح آفتاب لکھوں

قیادتوں کے جنوں میں جن کے قدم لہو سے رنگے ہوئے ہیں
یہ میرے بس میں نہیں ہے لوگو کہ ان کو عزت مآب لکھوں

یہی بہت ہے کہ ان لبوں کو صدا سے محروم کر کے رکھ دوں
مگر یہ کیسی مصالحت ہے سمندروں کو سراب لکھوں