عجیب خوف ہے جذبوں کی بے لباسی کا
جواز پیش کروں کیا میں اس اداسی کا
یہ دکھ ضروری ہے رشتے خلا پذیر ہوئے
ادا ہوا ہے مگر قرض خود شناسی کا
نہ خواب اور نہ خوف شکست خواب رہا
سبب یہی ہے نگاہوں کی بے ہراسی کا
کوئی ہے اپنے سوا بھی مسافت شب میں
سحر جو ہو تو کھلے راز خوش قیاسی کا
وہ سیل اشک سمٹنے لگا ہے شعروں میں
جسے ملا نہ کوئی راستہ نکاسی کا
غزل
عجیب خوف ہے جذبوں کی بے لباسی کا
شہناز نبی