عجیب خامشی ہے غل مچاتی رہتی ہے
یہ آسمان ہی سر پر اٹھاتی رہتی ہے
کیا ہے عشق تو ثابت قدم بھی رہنا سیکھ
میاں یہ ہجر کی آفت تو آتی رہتی ہے
یہ جو ہے آج خرابہ کبھی چمن تھا کیا
یہاں تو ایک مگس بھنبھناتی رہتی ہے
ڈرو نہیں یہ کوئی سانپ زیر کاہ نہیں
ہوا ہے اور وہی سرسراتی رہتی ہے
مرے ہی واسطے منظر ظہور کرتے ہیں
مری ہی آنکھ یہاں جگمگاتی رہتی ہے
ہوا اگرچہ بہت تیز ہے مگر پھر بھی
میں خاک ہوں یہ مرے کام آتی رہتی ہے
یہ کیسی چشم تخیل ہے اونگھتی بھی نہیں
عجیب رنگ کے منظر بناتی رہتی ہے
وہ اک نگاہ بھی نیزے سے کم نہیں یعنی
ہمارے خون جگر میں نہاتی رہتی ہے
قدم بھی خاک پہ کرتے ہیں کچھ نہ کچھ تحریر
ہوا کی موج بھی اس کو مٹاتی رہتی ہے

غزل
عجیب خامشی ہے غل مچاتی رہتی ہے
رفیق راز