عجیب کیفیت آخر تلک رہی دل کی
فراز دار میں بھی جستجو تھی منزل کی
وہ حسن جس سے ملا ہے مجھے شعور وفا
خدا نہیں تھا تو کیوں وحئ عشق نازل کی
تراشے کتنے ہی بت آذری کے فن نے مگر
ملی نہ ایک بھی صورت ترے مقابل کی
اب آنکھیں بند ہیں تاکہ کوئی سمجھ نہ سکے
مری نگاہ میں تصویرہوگی قاتل کی
دماغ دیدہ و دل سب نے روکنا چاہا
مگر جنوں نے مری ہر دلیل باطل کی
اسی کو کہتے ہیں ساحل پہ رہ کے تشنہ لبی
تلاش ہے تری محفل میں جان محفل کی
یہ بات سچ ہے کہ مرنا سبھی کو ہے لیکن
الگ ہی ہوتی ہے لذت نگاہ قاتل کی
تھا رہبروں پہ بھروسہ تو اب بھٹکتا ہوں
مجھے خبر ہی نہیں تھی فریب منزل کی
میاں شہیدؔ یہ مانا کہ تم بھی شاعر ہو
مگر بتاؤ کہ حق آگہی بھی حاصل کی
غزل
عجیب کیفیت آخر تلک رہی دل کی
عزیز الرحمن شہید فتح پوری