عجیب جنبش لب ہے خطاب بھی نہ کرے
سوال کر کے مجھے لا جواب بھی نہ کرے
وہ میرے قرب میں دوری کی چاشنی رکھے
مرے لیے مرا جینا عذاب بھی نہ کرے
کبھی کبھی مجھے سیراب کر کے خوش کر دے
ہمیشہ گمرہ سحر سراب بھی نہ کرے
عجیب برزخ الفت میں مجھ کو رکھا ہے
کہ وہ خفا بھی رہے اور عتاب بھی نہ کرے
وہ انتظار دکھائے اس احتیاط کے ساتھ
کہ میری آنکھوں کو محروم خواب بھی نہ کرے
وہ رات بھر کچھ اس انداز سے کرے باتیں
مجھے جگائے بھی نیندیں خراب بھی نہ کرے
ہر ایک شعر میں آزرؔ نقوش ہیں اس کے
مگر وہ خود کو کبھی بے نقاب بھی نہ کرے
غزل
عجیب جنبش لب ہے خطاب بھی نہ کرے
راشد آذر