عجیب ہم ہیں سبب کے بغیر چاہتے ہیں
تمہیں تمہاری طلب کے بغیر چاہتے ہیں
فقیر وہ ہیں جو اللہ تیرے بندوں کو
ہر امتیاز نسب کے بغیر چاہتے ہیں
مزا تو یہ ہے انہیں بھی نوازتا ہے رب
جو اس جہان کو رب کے بغیر چاہتے ہیں
نہیں ہے کھیل کوئی ان سے گفتگو کرنا
سخن وہ جنبش لب کے بغیر چاہتے ہیں
ٹھٹھرتی رات میں چادر بھی جن کے پاس نہیں
وہ دن نکالنا شب کے بغیر چاہتے ہیں
جمی ہے گرد سیاست کی جن کے ذہنوں پر
مشاعرہ بھی ادب کے بغیر چاہتے ہیں
ہے اعتماد انہیں خود پر غرور کی حد تک
اکیلے جینا جو سب کے بغیر چاہتے ہیں
غزل
عجیب ہم ہیں سبب کے بغیر چاہتے ہیں
طاہر فراز