EN हिंदी
عجیب دھند ہے آنکھوں کو سوجھتا بھی نہیں | شیح شیری
ajib dhund hai aaankhon ko sujhta bhi nahin

غزل

عجیب دھند ہے آنکھوں کو سوجھتا بھی نہیں

صدیق مجیبی

;

عجیب دھند ہے آنکھوں کو سوجھتا بھی نہیں
ابھی تو دن کا ورق ٹھیک سے جلا بھی نہیں

یہ کس حصار میں سانسوں نے کس دیا ہے مجھے
یہ کیسا گھر ہے نکلنے کا راستہ بھی نہیں

یہ کیسا دکھ ہے جو روتا ہے سسکیاں لے کر
کھنڈر میں کون ہے روپوش بولتا بھی نہیں

عجیب درد کا رشتہ ہے اک عذاب ہے یہ
جسے بھلا دیا میں نے وہ بھولتا بھی نہیں

مجھے بھی دیکھ مرے حوصلے بھی دیکھ ذرا
مرا تو کوئی نہیں تو نہیں خدا بھی نہیں

ہر ایک شب کوئی پلکوں کو آ کے سیتا ہے
وہ میرا کون ہے پوچھوں تو بولتا بھی نہیں