عجیب چیز محبت کی واردات بھی ہے
حدیث دل بھی ہے روداد کائنات بھی ہے
عبودیت تو ہمارا ہے شیوۂ فطری
اگر خدائی کریں ہم تو کوئی بات بھی ہے
ادھر بھی اٹھتی ہے ارباب انجمن کی نظر
کچھ آپ ہی نہیں محفل میں میری ذات بھی ہے
مرے وجود سے نا ممکنات کا عالم
مرے وجود سے دنیائے ممکنات بھی ہے
یہ ارتقائے بشر کی ہے کون سی منزل
کہ اس کی زد میں خدا بھی ہے کائنات بھی ہے
غزل
عجیب چیز محبت کی واردات بھی ہے
افسر ماہ پوری