EN हिंदी
اجل ہوتی رہے گی عشق کر کے ملتوی کب تک | شیح شیری
ajal hoti rahegi ishq kar ke multawi kab tak

غزل

اجل ہوتی رہے گی عشق کر کے ملتوی کب تک

صبا اکبرآبادی

;

اجل ہوتی رہے گی عشق کر کے ملتوی کب تک
مقدر میں ہے یا رب آرزوئے خود کشی کب تک

تڑپنے پر ہمارے آپ روکیں گے ہنسی کب تک
یہ ماتھے کی شکن کب تک یہ ابرو کی کجی کب تک

کرن پھوٹی افق پر آفتاب صبح محشر کی
سنائے جاؤ اپنی داستان زندگی کب تک

دیار عشق میں اک قلب سوزاں چھوڑ آئے تھے
جلائی تھی جو ہم نے شمع رستے میں جلی کب تک

جو تم پردہ اٹھا دیتے تو آنکھیں بند ہو جاتیں
تجلی سامنے آتی تو دنیا دیکھتی کب تک

تہ گرداب کی بھی فکر کر اے ڈوبنے والے
نظر آتی رہے گی ساحلوں کی روشنی کب تک

کبھی تو زندگی خود بھی علاج زندگی کرتی
اجل کرتی رہے درمان درد زندگی کب تک

وہ دن نزدیک ہیں جب آدمی شیطاں سے کھیلے گا
کھلونا بن کے شیطاں کا رہے گا آدمی کب تک

کبھی تو یہ فساد‌ ذہن کی دیوار ٹوٹے گی
ارے آخر یہ فرق خواجگی و بندگی کب تک

دیار عشق میں پہچاننے والے نہیں ملتے
الٰہی میں رہوں اپنے وطن میں اجنبی کب تک

مخاطب کر کے اپنے دل کو کہنا ہو تو کچھ کہیے
صباؔ اس بے وفا کے آسرے پر شاعری کب تک