عجب الجھن ہے جو سمجھا نہیں ہوں
جہاں ہوتا ہوں میں ہوتا نہیں ہوں
حقارت سے مجھے کیوں دیکھتا ہے
بتا کیا میں ترے جیسا نہیں ہوں
وہ میری بات جب سنتا نہیں ہے
جو میرے دل میں ہے کہتا نہیں ہوں
تعلق توڑتا ہوں دشمنوں سے
کبھی یاروں سے میں لڑتا نہیں ہوں
جہاں عزت نہیں ملتی ہے مجھ کو
وہاں پر میں کبھی جاتا نہیں ہوں
روانی میں مجھے رہنا پڑے گا
میں دریا ہوں کوئی صحرا نہیں ہوں
بھڑکتا ہوں میں اپنی لو سے گوہرؔ
کسی کی آگ سے جلتا نہیں ہوں

غزل
عجب الجھن ہے جو سمجھا نہیں ہوں
امتیاز علی گوہر