عجب سودائے وحشت ہے دل خود سر میں رہتا ہے
یہ کیسی چھب کا مالک ہے یہ کیسے گھر میں رہتا ہے
اسی کے دم قدم سے ہے جہان دید و نظارا
کہیں آنکھوں میں بستا ہے کہیں منظر میں رہتا ہے
نہال خشک میں اب تک وہ سوکھا زرد سا پتا
برہنہ لگتا ہے لیکن لباس زر میں رہتا ہے
مری آنکھوں سے لے کر تیرے چہرے تک ستارے ہیں
کہ جو گردش میں آ جائے اسی محور میں رہتا ہے
میں اپنے عکس کو رم خوردگی سے باز کیا رکھوں
غزال آئنہ خانہ کسی کے ڈر میں رہتا ہے
مجھے تو گور گریہ میں سلا دیتے ہیں گھر والے
مگر احساس بیداری مرے بستر میں رہتا ہے
غزل
عجب سودائے وحشت ہے دل خود سر میں رہتا ہے
عباس تابش