عجب صحرا بدن پر آب کا ابہام رکھا ہے
یہ کس نے اس سمندر کا سمندر نام رکھا ہے
وہی اک دن شہادت دے گا میری بے گناہی کی
وہ جس نے قتل گل کا میرے سر الزام رکھا ہے
میں تم سے پوچھتا ہوں جھیل ڈل کی بے زباں موجو
تہہ دامن چھپا کر تم نے کیا پیغام رکھا ہے
کبھی بادل میرے آنگن اترتا پوچھتا میں بھی
کہستاں پر برسنا کس نے تیرا کام رکھا ہے
رہا ہوگا وہ کتنا دل غنی دست سخی جس نے
جنوں کی مملکت کا ایک پتھر دام رکھا ہے
یہی نا پھول سے بچھڑے تو آوارہ ہوں صحرا میں
کہوں کیا کس نے خوشبوؤں کا یہ انجام رکھا ہے
مجھے منظور وہ اقدار بھی رد سب کریں جن کو
کسی نے سوچ کر منظورؔ میرا نام رکھا ہے
غزل
عجب صحرا بدن پر آب کا ابہام رکھا ہے
حکیم منظور