عجب صدا یہ نمائش میں کل سنائی دی
کسی نے سنگ سے تصویر کو رہائی دی
سنہرے حرف بھی مٹی کے بھاؤ بیچ دیے
تجھے تو میں نے نئے ذہن کی کمائی دی
بچا سکی نہ مجھے بھیڑ چپ کے قاتل سے
ہزار شور مچایا بہت دہائی دی
وہ شخص مر کے بھی اپنی جگہ سے ہل نہ سکا
کہ اک زمانے نے جنبش تو انتہائی دی
کبھی وہ ٹوٹ کے بکھرا کبھی وہ جمع ہوا
خدا نے اس کو عجب معجزہ نمائی دی
غزل
عجب صدا یہ نمائش میں کل سنائی دی
اقبال ساجد