عجب رنگ طلسم و طرز نو ہے
دیا ہے آگ کا مٹی کی لو ہے
مجھے سن لیں گی تو دیکھیں گی آنکھیں
مری آواز میں سورج کی ضو ہے
رکاب اور باگ قابو میں نہیں ہیں
یہ اسپ وقت کتنا تیز رو ہے
مری تعریف کے ہیں دو حوالے
قدم افلاک پر مٹھی میں جو ہے
نہیں ہے حریت کی کوئی قیمت
مگر پنجرے کی قیمت چار سو ہے
میں کیا ہریالیوں کی آس باندھوں
زمیں کے ساتھ سپنا بھی گرو ہے
طریرؔ آنسو ہیں اور دھندلاہٹیں ہیں
یہ کیسی کہکشاؤں کی جلو ہے
غزل
عجب رنگ طلسم و طرز نو ہے
دانیال طریر