EN हिंदी
عجب رنگ آنکھوں میں آنے لگے | شیح شیری
ajab rang aankhon mein aane lage

غزل

عجب رنگ آنکھوں میں آنے لگے

آشفتہ چنگیزی

;

عجب رنگ آنکھوں میں آنے لگے
ہمیں راستے پھر بلانے لگے

اک افواہ گردش میں ہے ان دنوں
کہ دریا کناروں کو کھانے لگے

یہ کیا یک بہ یک ہو گیا قصہ گو
ہمیں آپ بیتی سنانے لگے

شگن دیکھیں اب کے نکلتا ہے کیا
وہ پھر خواب میں بڑبڑانے لگے

ہر اک شخص رونے لگا پھوٹ کے
کہ آشفتہؔ جی بھی ٹھکانے لگے