عجب رنگ آنکھوں میں آنے لگے
ہمیں راستے پھر بلانے لگے
اک افواہ گردش میں ہے ان دنوں
کہ دریا کناروں کو کھانے لگے
یہ کیا یک بہ یک ہو گیا قصہ گو
ہمیں آپ بیتی سنانے لگے
شگن دیکھیں اب کے نکلتا ہے کیا
وہ پھر خواب میں بڑبڑانے لگے
ہر اک شخص رونے لگا پھوٹ کے
کہ آشفتہؔ جی بھی ٹھکانے لگے
غزل
عجب رنگ آنکھوں میں آنے لگے
آشفتہ چنگیزی