عجب موجودگی ہے جو کمی پر مشتمل ہے
کسی کا شور میری خامشی پر مشتمل ہے
اندھیری صبح ویراں رات یا شام فسردہ
مرا ہر لمحہ ان میں سے کسی پر مشتمل ہے
نہیں مل پاتی کوئی بھی ہنسی میری ہنسی میں
یہ واحد رنج ہے جو رنج ہی پر مشتمل ہے
چمک اٹھتا ہے اک بھولا ہوا چہرہ اچانک
نہ جانے تیرگی کس روشنی پر مشتمل ہے
سراب خواب دیکھوں یا اڑاؤں خاک اپنی
یہ صحرا اک مکاں اور اک گلی پر مشتمل ہے
ورق کھلتے ہی کتنی تتلیاں اڑتی ہیں شارقؔ
اگرچہ باغ اک سوکھی کلی پر مشتمل ہے
غزل
عجب موجودگی ہے جو کمی پر مشتمل ہے
سعید شارق