عجب کوئی زور بیاں ہو گیا ہوں
رکا ہوں تو پھر سے رواں ہو گیا ہوں
بہت گرد اڑنے لگی میرے پیچھے
اکیلا ہی میں کارواں ہو گیا ہوں
سبھی میرے ہونے پہ خوش ہو رہے ہیں
مجھے بھی بتاؤ کہاں ہو گیا ہوں
کنارے نکل آئے ہیں میرے اندر
بظاہر تو میں بے کراں ہو گیا ہوں
کسی کام سے شادماں ہوتے ہوتے
کسی بات سے بدگماں ہو گیا ہوں
کسی کے لیے واقعہ ہوں یہاں پر
کسی کے لیے داستاں ہو گیا ہوں
میں باہر تو محفوظ تھا ہر طرح سے
گھر آیا ہوں اور بے اماں ہو گیا ہوں
جو پڑنے لگی تھی بہت میری قیمت
ہوں شرمندہ اور رائیگاں ہو گیا ہوں
ظفرؔ کام لوں اب اشاروں سے کب تک
زباں توڑ کر بے زباں ہو گیا ہوں
غزل
عجب کوئی زور بیاں ہو گیا ہوں
ظفر اقبال