عجب جوبن ہے گل پر آمد فصل بہاری ہے
شتاب آ ساقیا گل رو کہ تیری یادگاری ہے
رہا کرتا ہے صیاد ستم گر موسم گل میں
اسیران قفس لو تم سے اب رخصت ہماری ہے
کسی پہلو نہیں آرام آتا تیرے عاشق کو
دل مضطر تڑپتا ہے نہایت بے قراری ہے
صفائی دیکھتے ہی دل پھڑک جاتا ہے بسمل کا
ارے جلاد تیرے تیغ کی کیا آب داری ہے
دلا اب تو فراق یار میں یہ حال ہے اپنا
کہ سر زانو پہ ہے اور خون دل آنکھوں سے جاری ہے
الٰہی خیر کیجو کچھ ابھی سے دل دھڑکتا ہے
سنا ہے منزل اول کی پہلی رات بھاری ہے
رساؔ محو فصاحت دوست کیا دشمن بھی ہیں سارے
زمانے میں ترے طرز سخن کی یادگاری ہے
غزل
عجب جوبن ہے گل پر آمد فصل بہاری ہے
بھارتیندو ہریش چندر