عجب انقلاب کا دور ہے کہ ہر ایک سمت فشار ہے
نہ کہیں خرد کو سکون ہے نہ کہیں جنوں کو قرار ہے
کہیں گرم بزم حبیب ہے کہیں سرد محفل یار ہے
کہیں ابتدائے سرور ہے کہیں انتہائے خمار ہے
مرا دل ہے سینے میں روشنی اسی روشنی پہ مدار ہے
میں مسافر رہ عشق ہوں تو یہ شمع راہ گزار ہے
جسے کہتے ہیں تری انجمن عجب انجمن ہے یہ انجمن
کوئی اس میں سوختہ حال ہے کوئی اس میں سینہ فگار ہے
یہ اثر ہے ایک نگاہ کا کہ مزاج طبع بدل دیا
جو ہمیشہ شکوہ گزار تھا وہ تمہارا شکر گزار ہے
یہ ضروری کیا ہے کہ ہر بشر رہے نام و کام سے با خبر
مگر اتنا جان چکے ہیں سب کہ تخلص اس کا غبارؔ ہے

غزل
عجب انقلاب کا دور ہے کہ ہر ایک سمت فشار ہے
غبار بھٹی