عجب اک وقت گلشن میں یہ پیغام بہار آیا
فضا ہی سازگار آئی نہ موسم سازگار آیا
سناؤں کیا میں اپنی داستان غم تجھے ہمدم
وہ آیا اپنی محفل میں مگر بیگانہ وار آیا
تبسم نے کسی کے روح پھونکی گلستانوں میں
شگوفوں کو جوانی کا یقین و اعتبار آیا
اسی کو لوگ کہتے ہیں سرور و کیف کا عالم
صراحی ختم ہو جانے پہ ہلکا سا خمار آیا
عجب اک محویت تھی لوگ دیوانہ سمجھتے تھے
ترے کوچے میں کچھ دن اس طرح میں بھی گزار آیا
کرو اے ہم صفیرو اہتمام جشن آزادی
خزاں رخصت ہوئی لو جھوم کر ابر بہار آیا
نظرؔ نے خود بھی دیکھا ہے جمال یار کا عالم
جو ان کے روبرو پہنچا وہی کچھ بے قرار آیا
غزل
عجب اک وقت گلشن میں یہ پیغام بہار آیا
نظر برنی