EN हिंदी
عجب ہی حال تھا آواز کا تو | شیح شیری
ajab hi haal tha aawaz ka to

غزل

عجب ہی حال تھا آواز کا تو

ساون شکلا

;

عجب ہی حال تھا آواز کا تو
یہ مر جاتی اگر میں بولتا تو

مرا سایہ نہیں بڑھتا ہے آگے
یہ کہتا ہے اگر میں گر گیا تو

میں جیسا تھا مری تصویر میں کل
تمہیں ویسا اگر میں نہ ملا تو

تمہارے تبصرے سے تنگ آ کر
ہمارے حال نے کچھ کر لیا تو

دبا کر تو رکھوں گا راز تیرے
مجھے پھر بھی کسی نے پڑھ لیا تو

تمہیں بے چینیاں ہی مار دیں گی
اگر میں ہنس کے تھوڑا مل لیا تو

نہیں رہ پاؤ گے پھر تم وہاں پر
کلیجہ کاٹ کر کچھ لکھ دیا تو

مٹا دو گے مجھے تم جانتا ہوں
مگر سوچو اگر میں بچ گیا تو

نکل پڑتے ہو تم یوں سج سنور کے
کبھی سوچا مجھے کچھ ہو گیا تو

بظاہر جنگ ہوگی حادثوں کی
اگر میں بیچ میں سے ہٹ گیا تو