عجب دشت ہوس کا سلسلہ ہے
بدن آواز بن کر گونجتا ہے
کہ وہ دیوار اونچی ہو گئی ہے
کہ میرا قد ہی چھوٹا ہو گیا ہے
گلے تک بھر گیا اندھا کنواں بھی
مری آواز پر کم بولتا ہے
میں اپنی جامہ پوشی پر پشیماں
وہ اپنی بے لباسی پر فدا ہے
بدن پر چیونٹیاں سی رینگتی ہیں
یہ کیسا کھردرا بستر بچھا ہے
وہ آنکھیں ہو گئیں تقسیم دو پر
جواب اب اور مشکل ہو گیا ہے
وہ بہتے پانیوں پر نقش ہوگا
جو بھیگی ریت پر لکھا ہوا ہے
پڑھا تھا جو کتاب زندگی سے
وہی لوح بدن پر لکھ دیا ہے
غزل
عجب دشت ہوس کا سلسلہ ہے
پریم کمار نظر