عجب بھول و حیرت جو مخلوق کو ہے
خدا کی طلب شرک کی جستجو ہے
شراب محبت میں مخمور ہوں میں
پیالہ بھرا ہے ملبب سبو ہے
پتہ ایک کا دو میں کیوں کر ملے گا
جو کثرت فنا ہو تو خود تو ہی تو ہے
نہیں غیر کوئی تشخص کا پردہ
من و تو فقط غیر کی گفتگو ہے
ہے خود آپ موجود ہر یک صفت سے
جدائی نہیں اس میں کچھ مو بہ مو ہے
صفت بسط و قابض کی تخم و شجر ہے
جو بو ہے سو گل ہے جو گل ہے سو بو ہے
وہ پیر طریقت ہے کامل اسی کو
خدا اس کے ہر آن میں روبرو ہے
وجود ایک ہے صورت اس کی مغیر
ہے جلوہ اسی کا نہ میں اور تو ہے
تو مرکزؔ ہے عالم میں پیدا و ظاہر
بنایا بناتا ہے جو کچھ کہ تو ہے

غزل
عجب بھول و حیرت جو مخلوق کو ہے
یاسین علی خاں مرکز