عجب بے کیف ہے راتوں کی تنہائی کئی دن سے
کسی کی یاد بھی دل میں نہیں آئی کئی دن سے
بہت مغموم ہے شان مسیحائی کئی دن سے
بڑھی جاتی ہے زخم دل کی گہرائی کئی دن سے
کلی نے بھی اڑایا تھا مذاق گریۂ شبنم
پڑی ہے خاک پر خشک اور مرجھائی کئی دن سے
چرا لائی ہے شاید نکہت گل صحن گلشن سے
نسیم صبح کیوں پھرتی ہے گھبرائی کئی دن سے
خدا جانے یہ اب کیا ہو گیا ہم بد نصیبوں کو
کہ تیرے غم کی لذت بھی نہ راس آئی کئی دن سے
ادھر بھی اک نظر اے مالک ویرانہ و گلشن
ترے کوچے میں پھرتا ہے یہ سودائی کئی دن سے
شہید عشق کی یہ موت ہے یا زندگی یا رب
نہیں معلوم کیوں بجتی ہے شہنائی کئی دن سے
قیامت سے نہیں کم فرقت احباب کا غم بھی
دل مضطر کو روتی ہے شکیبائی کئی دن سے
نظر میں تشنگی لب پر دعائیں دل میں امیدیں
حرم کے گرد پھرتا ہے تمنائی کئی دن سے
دل بیمار سے کیا کہہ دیا ان کی نگاہوں نے
کچھ اب محسوس ہوتی ہے توانائی کئی دن سے
کسی اہل نظر کی پھر انہیں شاید ضرورت ہے
کہ پھر بیتاب ہے شوق خود آرائی کئی دن سے
سنیں ارباب محفل گوش دل سے دل کی آوازیں
کہ ذوقیؔ کر رہا ہے نغمہ پیرائی کئی دن سے
غزل
عجب بے کیف ہے راتوں کی تنہائی کئی دن سے
محمد ایوب ذوقی