عجب اسباب کرتا جا رہا ہوں
لہو سیماب کرتا جا رہا ہوں
میں اپنی موج میں اک رقص دیگر
سر گرداب کرتا جا رہا ہوں
ازل سے جاگتی آنکھوں جہاں میں
بسر اک خواب کرتا جا رہا ہوں
سر مژگاں ابھرتا ہے جو تارا
اسے مہتاب کرتا جا رہا ہوں
جو دل اک عمر سے بنجر پڑے تھے
انہیں سیراب کرتا جا رہا ہوں
میں راہ شوق کی ہر کنکری کو
در نایاب کرتا جا رہا ہوں
وہ اعجاز سخن بخشا ہے اس نے
چٹانیں آب کرتا جا رہا ہوں
غزل
عجب اسباب کرتا جا رہا ہوں
جلیل عالیؔ