EN हिंदी
عجب اسباب کرتا جا رہا ہوں | شیح شیری
ajab asbab karta ja raha hun

غزل

عجب اسباب کرتا جا رہا ہوں

جلیل عالیؔ

;

عجب اسباب کرتا جا رہا ہوں
لہو سیماب کرتا جا رہا ہوں

میں اپنی موج میں اک رقص دیگر
سر گرداب کرتا جا رہا ہوں

ازل سے جاگتی آنکھوں جہاں میں
بسر اک خواب کرتا جا رہا ہوں

سر مژگاں ابھرتا ہے جو تارا
اسے مہتاب کرتا جا رہا ہوں

جو دل اک عمر سے بنجر پڑے تھے
انہیں سیراب کرتا جا رہا ہوں

میں راہ شوق کی ہر کنکری کو
در نایاب کرتا جا رہا ہوں

وہ اعجاز سخن بخشا ہے اس نے
چٹانیں آب کرتا جا رہا ہوں