EN हिंदी
عجب آہنگ تھا اس شور میں بھی خرچ ہوئی | شیح شیری
ajab aahang tha us shor mein bhi KHarch hui

غزل

عجب آہنگ تھا اس شور میں بھی خرچ ہوئی

اسامہ امیر

;

عجب آہنگ تھا اس شور میں بھی خرچ ہوئی
میری آواز سکوت عجبی خرچ ہوئی

ایک ہی آن میں دیدار ہوا بات ہوئی
خواہش وصل سر طور سبھی خرچ ہوئی

زندگی تیرے تعاقب میں گزاری ہوئی شب
بڑی مشکل سے ملی اور یوں ہی خرچ ہوئی

صبح تک زلف سیہ رنگ کا جادو تھا عجب
رات بوتل میں تھی جتنی بھی بچی خرچ ہوئی

صبح اٹھتے ہی میں کچھ دھوپ بھروں‌ گا ان میں
خواب دیکھیں ہیں تو آنکھوں کی نمی خرچ ہوئی

کتنی تہہ دار خلا ہے یہ خلا کے اندر
آسماں دیکھ کے نور نظری خرچ ہوئی

کیا ہی اچھی تھی کلائی میں بندھی رہتی تھی
وقت کو دیکھتے رہنے سے گھڑی خرچ ہوئی

بڑی ویرانی سر کوچۂ ظلمت ہے نصیب
آپ آئے ہیں تو تھوڑی ہی سہی خرچ ہوئی