EN हिंदी
ایسی ویسی پہ قناعت نہیں کر سکتے ہم | شیح شیری
aisi waisi pe qanaat nahin kar sakte hum

غزل

ایسی ویسی پہ قناعت نہیں کر سکتے ہم

سرفراز زاہد

;

ایسی ویسی پہ قناعت نہیں کر سکتے ہم
دان یہ فقر کی دولت نہیں کر سکتے ہم

اک عداوت سے فراغت نہیں ملتی ورنہ
کون کہتا ہے محبت نہیں کر سکتے ہم

کسی تعبیر کی صورت میں نکل آتے ہیں
اپنے خوابوں میں سکونت نہیں کر سکتے ہم

استعاروں کے تکلف میں پڑے ہیں جب سے
اپنے ہونے کی وضاحت نہیں کر سکتے ہم

شاخ سے توڑ لیا کرتے ہیں آگے بڑھ کر
جن کی خوش بو پہ قناعت نہیں کر سکتے ہم

بے خبر یوں ہر اک بات خبر لگتی ہے
با خبر ایسے کہ حیرت نہیں کر سکتے ہم