ایسی ویسی پہ قناعت نہیں کر سکتے ہم
دان یہ فقر کی دولت نہیں کر سکتے ہم
اک عداوت سے فراغت نہیں ملتی ورنہ
کون کہتا ہے محبت نہیں کر سکتے ہم
کسی تعبیر کی صورت میں نکل آتے ہیں
اپنے خوابوں میں سکونت نہیں کر سکتے ہم
شاخ سے توڑ لیا کرتے ہیں آگے بڑھ کر
جن کی خوشبو پہ قناعت نہیں کر سکتے ہم
بے خبر یوں کہ ہر اک بات خبر لگتی ہے
خبر ایسے ہے کہ حیرت نہیں کر سکتے ہم
غزل
ایسی ویسی پہ قناعت نہیں کر سکتے ہم
سرفراز زاہد