ایسی الجھن ہو کبھی ایسی بھی رسوائی ہو
دل کے ہر زخم میں دریاؤں سی گہرائی ہو
یوں گزرتے ہیں ترے ہجر میں دن رات مرے
جان پہ جیسے کسی شخص کے بن آئی ہو
پھول کی مثل سبھی داغ مہکنے لگ جائیں
کاش ایسا بھی کہیں طرز مسیحائی ہو
کیسا منظر ہو کہ سر پھوڑتے دیوانوں کے
سنگ ہو ہاتھ میں اور سامنے ہرجائی ہو
وہ سخن ور جو سخن ور ہیں حقیقی صاحب
ایسے لوگوں کا کبھی جشن پذیرائی ہو
ہے مزاج اپنا الگ اپنی طبیعت ہے جدا
کیسے اس دور کے لوگوں سے شناسائی ہو
چائے کا کپ ہو نبیلؔ اور کسی کی یادیں
رات کا پچھلا پہر عالم تنہائی ہو
غزل
ایسی الجھن ہو کبھی ایسی بھی رسوائی ہو
نبیل احمد نبیل