ایسی تقسیم کی صورت نکل آئی گھر میں
دھوپ نے ہجر کی دیوار اٹھائی گھر میں
سیل ایسا تھا کہ سب شہر بدن ڈوب گیا
رات بارش نے عجب بزم سجائی گھر میں
منتظر کتنے رہے بند دریچے سارے
تیری آواز نہ پھر لوٹ کے آئی گھر میں
در و دیوار مہکنے لگے اندازوں سے
میں نے تصویر تری جوں ہی لگائی گھر میں
یوں ہی اک رات اسے دل سے نکالا کیا تھا
پھر مجھے راس کوئی رات نہ آئی گھر میں
غزل
ایسی تقسیم کی صورت نکل آئی گھر میں
طارق نعیم