EN हिंदी
ایسی تنہائی ہے اپنے سے بھی گھبراتا ہوں میں | شیح شیری
aisi tanhai hai apne se bhi ghabraata hun main

غزل

ایسی تنہائی ہے اپنے سے بھی گھبراتا ہوں میں

علی جواد زیدی

;

ایسی تنہائی ہے اپنے سے بھی گھبراتا ہوں میں
جل رہی ہیں یاد کی شمعیں بجھا جاتا ہوں میں

آ گئی آخر غم دل وہ بھی منزل آ گئی
مجھ کو سمجھاتے تھے جو اب ان کو سمجھاتا ہوں میں

زندگی آزادہ رو بحر حقیقت بے کنار
موج آتی ہے تو بڑھتا ہی چلا جاتا ہوں میں

بزم فکر و ہوش ہو یا محفل عیش و نشاط
ہر جگہ سے چند نشتر چند غم لاتا ہوں میں

ذہن میں یادوں کے گلشن دل میں عزم جوئے شیر
اک نیا فرہاد پاتا ہوں جدھر جاتا ہوں میں

شب کے سناٹے میں رہ غیروں کے نغمے کی طرح
اہل دل کی بستیوں میں آہ بن جاتا ہوں میں

ہمت افزا ہے ہر اک افتاد راہ عشق کی
ٹھوکریں کھاتا ہوں گرتا ہوں سنبھل جاتا ہوں میں

عشق اکثر مانگتا ہے نغمۂ عشرت کی بھیک
اہل دنیا کی تہی دستی پہ شرماتا ہوں میں

شام تنہائی بجھا دو جھلملاتی شمع بھی
ان اندھیروں ہی میں اکثر روشنی پاتا ہوں میں

آج آغوش تمنا تھی شناسائے وصال
رزم گاہ زندگی میں تازہ دم آتا ہوں میں

کوئی نازک ہاتھ بازو تھام لیتا ہے مرا
ٹھوکریں کھاتا تو ہوں لیکن سنبھل جاتا ہوں میں

اپنے مٹنے کا بھی غم ہوتا ہے اس احساس سے
میں نہیں اپنا مگر تیرا تو کہلاتا ہوں میں

ہے سہانی کس قدر ان دوریوں کی چاندنی
پوچھ لیتا ہے کوئی زیدیؔ تو اتراتا ہوں میں