ایسی نیند آئی کہ پھر موت کو پیار آ ہی گیا
رات بھر جاگنے والے کو قرار آ ہی گیا
خاک میں یوں نہ ملانا تھا مری جاں تم کو
اک وفادار کے دل میں بھی غبار آ ہی گیا
یاد گیسو نے تسلی تو بہت دی لیکن
سامنے رات مآل دل زار آ ہی گیا
کشتۂ ناز کی میت پہ نہ آنے والا
پھول دامن میں لیے سوئے مزار آ ہی گیا
یہ بیاباں یہ شب ماہ یہ خنکی یہ ہوا
اے خزاں تجھ کو بھی انداز بہار آ ہی گیا
آفریں اشک ندامت کی درخشانی کو
اک سیہ کار کے چہرے پہ نکھار آ ہی گیا
بعد منزل بھی نہ محسوس ہوا مجھ کو شفیقؔ
مرحبا صل علیٰ کوچۂ یار آ ہی گیا
غزل
ایسی نیند آئی کہ پھر موت کو پیار آ ہی گیا
شفیق جونپوری