EN हिंदी
ایسی نیند آئی کہ پھر موت کو پیار آ ہی گیا | شیح شیری
aisi nind aai ki phir maut ko pyar aa hi gaya

غزل

ایسی نیند آئی کہ پھر موت کو پیار آ ہی گیا

شفیق جونپوری

;

ایسی نیند آئی کہ پھر موت کو پیار آ ہی گیا
رات بھر جاگنے والے کو قرار آ ہی گیا

خاک میں یوں نہ ملانا تھا مری جاں تم کو
اک وفادار کے دل میں بھی غبار آ ہی گیا

یاد گیسو نے تسلی تو بہت دی لیکن
سامنے رات مآل دل زار آ ہی گیا

کشتۂ ناز کی میت پہ نہ آنے والا
پھول دامن میں لیے سوئے مزار آ ہی گیا

یہ بیاباں یہ شب ماہ یہ خنکی یہ ہوا
اے خزاں تجھ کو بھی انداز بہار آ ہی گیا

آفریں اشک ندامت کی درخشانی کو
اک سیہ کار کے چہرے پہ نکھار آ ہی گیا

بعد منزل بھی نہ محسوس ہوا مجھ کو شفیقؔ
مرحبا صل علیٰ کوچۂ یار آ ہی گیا