ایسی ہی زمیں بنا رہا تھا
پر اور کہیں بنا رہا تھا
اس بت نے جہاں بنایا تھا بت
میں برسوں وہیں بنا رہا تھا
میں رات بنا رہا تھا لیکن
تاریک نہیں بنا رہا تھا
سورج تو بنا رہا تھا رخسار
مہتاب جبیں بنا رہا تھا
ان آنکھوں کو چومتا ہوا میں
کچھ اور حسیں بنا رہا تھا
افسوس وہ بن نہیں سکا جو
میں اپنے تئیں بنا رہا تھا
مارا گیا بدگمانیاں میں
بیچارہ یقیں بنا رہا تھا

غزل
ایسی ہی زمیں بنا رہا تھا
احسان اصغر