عیش کے رنگ ملالوں سے دبے جاتے ہیں
اب تو ہم اپنے ہی حالوں سے دبے جاتے ہیں
پاؤں رکھنا مجھے صحرا میں بھی دشوار ہے اب
سارے کانٹے مرے چھالوں سے دبے جاتے ہیں
توبہ توبہ وہ مرے خواب میں کیا آئیں گے
جاگتے میں جو خیالوں سے دبے جاتے ہیں
اللہ اللہ ری نزاکت ترے رخساروں کی
اتنے نازک ہیں کہ کھالوں سے دبے جاتے ہیں
تو ہے کوٹھے پہ تو کترا کے نکلتی ہے گھٹا
کالے بادل ترے بالوں سے دبے جاتے ہیں
کیا دبائیں گے ابھر کر ترے جوبن ظالم
یہ تو خود دیکھنے والوں سے دبے جاتے ہیں
ان کو اے شوق طلب چھیڑ کے محجوب نہ کر
جو محبت کے خیالوں سے دبے جاتے ہیں
بے طرح بار محبت تو پڑا ہے ان پر
آپ کیوں چاہنے والوں سے دبے جاتے ہیں
بار ہوں دیدۂ ارباب سخن پر مضطرؔ
مدعی میرے کمالوں سے دبے جاتے ہیں
غزل
عیش کے رنگ ملالوں سے دبے جاتے ہیں
مضطر خیرآبادی