ایسے تو کوئی ترک سکونت نہیں کرتا
ہجرت وہی کرتا ہے جو بیعت نہیں کرتا
یہ لوگ مجھے کس لیے دوزخ سے ڈرائیں
میں عاشقی کرتا ہوں عبادت نہیں کرتا
ہم سلسلہ داروں کے ہو کیوں جان کے درپئے
کافر اسے کہیے جو محبت نہیں کرتا
لگتا ہے یہاں موت نہیں آنی کسی کو
اس شہر میں اب کوئی وصیت نہیں کرتا
یہ مجھ کو بتاتے ہیں غزالان طرح دار
اچھا وہی رہتا ہے جو وحشت نہیں کرتا
تابشؔ کا قیامت سے یقیں اٹھ نہ گیا ہو
کچھ دن سے وہ ذکر قد و قامت نہیں کرتا
غزل
ایسے تو کوئی ترک سکونت نہیں کرتا
عباس تابش