ایسے رکھتی ہے ہمیں تیری محبت زندہ
جس طرح جسم کو سانسوں کی حرارت زندہ
شوق کی راہ میں اک ایسا بھی پل آتا ہے
جس میں ہو جاتی ہے صدیوں کی ریاضت زندہ
روز اک خوف کی آواز پہ ہم اٹھتے ہیں
روز ہوتی ہے دل و جاں میں قیامت زندہ
اب بھی انجان زمینوں کی کشش کھینچتی ہے
اب بھی شاید ہے لہو میں کہیں ہجرت زندہ
طاعت جبر بہت عام ہوئی جاتی تھی
ایک انکار نے کی رسم بغاوت زندہ
ہم تو مر کر بھی نہ باطل کو سلامی دیں گے
کیسے ممکن ہے کہ کر لیں تری بیعت زندہ
ہم میں سقراط تو کوئی نہیں پھر بھی شہبازؔ
زہر پی لیتے ہیں رکھتے ہیں روایت زندہ

غزل
ایسے رکھتی ہے ہمیں تیری محبت زندہ
شہباز خواجہ