EN हिंदी
ایسے کچھ لوگ بھی مٹی پہ اتارے جائیں | شیح شیری
aise kuchh log bhi miTTi pe utare jaen

غزل

ایسے کچھ لوگ بھی مٹی پہ اتارے جائیں

حسان احمد اعوان

;

ایسے کچھ لوگ بھی مٹی پہ اتارے جائیں
دیکھ کر جن کو خد و خال سنوارے جائیں

ایک ہی وصل کی تاثیر رہے گی قائم
کون چاہے گا یہاں سال گزارے جائیں

تیرے مژگاں ہیں کہ صورت کوئی قوسین کی ہے
درمیاں آ کے کہیں لوگ نہ مارے جائیں

ماہی اس پار کھڑا آپ کی رہ تکتا ہے
آپ تعظیم کریں اور کنارے جائیں

اب میسر نہیں کوئی بھی ٹھکانہ ہم کو
تم بتاؤ کہ کہاں دوست تمہارے جائیں

چند شعروں کی ضرورت ہے انہیں خاطر دوست
وہ بضد ہیں کہ وہ اشعار ہمارے جائیں

روشنی چاہیے کچھ دیر ذرا اور ہمیں
چاند رک جائے یہیں اور ستارے جائیں