ایسے بھی کچھ لمحے یارو آئیں گے
ہم مشکوک نظر سے دیکھے جائیں گے
نیند بھری آنکھیں بھی دھوکہ دیتی ہیں
جاگو گے تو خواب کہاں سے آئیں گے
ان سے پردہ داری گھر میں مشکل ہے
فرصت کے لمحے ہیں آئیں جائیں گے
دھول ہوا جاتا ہے منظر راتوں کا
خوابوں کا معیار کہاں سے لائیں گے
سناٹا آوارہ پھرتا ہے گھر میں
ہم اس کو اب کام دلا کر جائیں گے
مندر مسجد گردوارے سب ششدر ہیں
اب رستے کے پتھر پوجے جائیں گے
دھوپ میں بیٹھے سینک رہے ہو اپنا بدن
یہ بھی منظر اب عریاں کہلائیں گے
سورج چھت سے اتر گیا تو کیا غم ہے
اندھیارے میں رندؔ کہیں سو جائیں گے
غزل
ایسے بھی کچھ لمحے یارو آئیں گے
پی.پی سری واستو رند