ایسا یہ درد ہے کہ بھلایا نہ جائے گا
معیار عشق ان سے بڑھایا نہ جائے گا
اس بار ان سے کہہ دو قدم سوچ کر رکھیں
اجڑا جو پھر یہ شہر بسایا نہ جائے گا
جو لوگ بغض دل میں چھپائے ہیں آج بھی
ان سے مرے مکان میں آیا نہ جائے گا
حق بات بولنے سے کیا جس کسی نے خوف
محفل میں پھر کبھی بھی بلایا نہ جائے گا
تھے متفق تو بات سے میری سبھی مگر
شیوہ مرا خیال بنایا نہ جائے گا
شاید اسی لیے نہیں آئے وہ میرے پاس
جو آ گئے تو چھوڑ کے جایا نہ جائے گا
گر احترام کر نہ سکے بزم ناز کا
شرمندگی سے سر کو اٹھایا نہ جائے گا
زہر آب میرے واسطے وہ لے تو آئے گا
ساقی سے جام ہم کو پلایا نہ جائے گا
اسریٰؔ بنا لو شوق کو اپنے جنوں کی آگ
اک بار بجھ گئی تو جلایا نہ جائے گا
غزل
ایسا یہ درد ہے کہ بھلایا نہ جائے گا
اسریٰ رضوی