ایسا نہیں کہ اس نے بنایا نہیں مجھے
جو زخم اس کو آیا ہے آیا نہیں مجھے
دیوار کو گرا کے اٹھایا بھی میں نے تھا
دیوار نے گرا کے اٹھایا نہیں مجھے
میں خود بھی آ رہا تھا جگہ ڈھونڈتے ہوئے
یاں تک یہ انہدام ہی لایا نہیں مجھے
میرا یہ کام اور کسی کے سپرد ہے
خود خواب دیکھنا ابھی آیا نہیں مجھے
کل نیند میں چراغ کو ناراض کر دیا
سورج نے آج صبح جگایا نہیں مجھے
زنجیر لازمی ہے کہ زنجیر کے بغیر
چلنا زمین پر ابھی آیا نہیں مجھے
غزل
ایسا نہیں کہ اس نے بنایا نہیں مجھے
شاہین عباس